قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 2
مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى
ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم تکلیف اُٹھاؤ
آیت ۲: مَـآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی: «ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑیں۔»
آپ کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچا دینے کی حد تک ہے۔ اب اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ ان کے پیچھے خود کو ہلکان نہ کریں۔ یہی مضمون اس سے پہلے سورۃ الکہف میں اس طرح آ چکا ہے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا: «تو (اے نبی!) آپ شاید اپنے آپ کو غم سے ہلاک کر لیں گے ان کے پیچھے، اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات (قرآن) پر»۔ سورۃ الشعراء میں بھی فرمایا گیا: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ: «شاید کہ آپ ہلاک کر ڈالیں اپنے آپ کو (اس وجہ سے) کہ وہ ایمان نہیں لا رہے»۔ بہر حال یہ تو اس آیت کا وہ ترجمہ اور مفہوم ہے جو عمومی طور پر اختیار کیا گیا ہے، لیکن میرے نزدیک اس کا زیادہ بہتر مفہوم یہ ہے کہ اے نبی ! ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام ہوں۔ اس لیے کہ شَقِیَ یَشْقٰی کے معنی ناکام و نامراد ہونے کے ہیں۔
عربی زبان کے بہت سے مادے ایسے ہیں جن کے حروف کی آپس میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ مثلاً «رب ب» مادہ سے رَبَّ یَرُبُّ کا معنی ہے: مالک ہونا، انتظام کرنا۔ اس سے لفظ «رب» بنا ہے۔ «ر ب و» سے رَبَا یَرْبُوْ رَبْوًا کا مفہوم ہے: (مال) زیادہ ہونا، بڑھنا۔ اس سے ربا (سود) مستعمل ہے۔ جبکہ «ر ب ی» سے رَبّٰی یُرَبِّیْ تَرْبِیَۃً کا معنی و مراد ہے : پرورش کرنا، نشوونما دینا۔ ان مادوں کے معنی اگرچہ الگ الگ ہیں مگر حروف کے اشتراک کی وجہ سے ان میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح «ش ق ی» اور «ش ق ق» بھی دو مختلف المعانی لیکن باہم مشابہ مادے ہیں۔ ایسے مشابہ مادوں سے مشتق اکثر اَسماء و افعال بھی باہم مشابہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے بہت سے الفاظ ذو معنی بھی قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ تَشْقٰی کو اگر «ش ق ق»سے مشتق مانا جائے تو اس کے معنی مشقت اور محنت کے ہوں گے اور اگر اس کا تعلق «ش ق ی» سے تسلیم کیا جائے تو معنی ناکامی و نامرادی کے ہوں گے۔ یہاں اگر اس لفظ کا دوسرا ترجمہ مراد لیا جائے تو یہ آیت حضور کے لیے گویا ایک بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے نبی یہ قرآن قولِ فیصل بن کر نازل ہوا ہے، لہٰذا آپ کے اس مشن میں ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عنقریب کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔