March 12, 2025

قرآن کریم > إبراهيم >surah 14 ayat 5

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ 

اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ : ’’ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائو ، اور (مختلف لوگوں کو ) اﷲ نے (خوشحالی اور بدحالی کے ) جو دن دِکھائے ہیں ، اُن کے حوالے سے انہیں نصیحت کرو ۔ ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صبر اور شکر کا خو گر ہو ، اُس کیلئے اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں

 آیت ۵:  وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ: «اور (اسی طرح) ہم نے بھیجا تھا موسی ٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ کہ نکالواپنی قوم کو اندھیروں سے اُجالے کی طرف اور انہیں خبردار کرواللہ کے دنوں کے حوالے سے۔»

            یہ «التّذکیر بایّام اللّٰہ» کی وہی اصطلاح ہے جس کا ذکر شاہ ولی اللہ دہلوی کے حوالے سے قبل ازیں بار بار آ چکا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی مشہور کتاب «الفوز الکبیر» میں مضامین قرآن کی تقسیم کے سلسلے میں «التذکیر بایام اللّٰہ» کی یہ اصطلاح استعمال کی ہے، یعنی اللہ کے ان دنوں کے حوالے سے لوگوں کو خبردار کرنا جن دنوں میں اللہ نے بڑے بڑے فیصلے کیے اور ان فیصلوں کے مطابق کئی قوموں کو نیست و نابود کر دیا۔ اس کے ساتھ شاہ ولی اللہ نے دوسری اصطلاح «التذکیر بِآلاء اللّٰہ » کی استعمال کی ہے، یعنی اللہ کی نعمتوں اور اس کی نشانیوں کے حوالے سے تذکیر اور یاد دہانی۔

             اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ: «یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر اُس انسان کے لیے جو بہت صبر کرنے والا اور بہت شکر کرنے والا ہے۔»

            صَبَّار اور شَکُور دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبر اور شکر یہ دونو ں صفات آپس میں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی (complementary) نوعیت کی ہیں۔ چنانچہ ایک بندۂ مؤمن کو ہر وقت ان میں سے کسی ایک حالت میں ضرورہو نا چاہیے اور اگر وہ ان میں سے ایک حالت سے نکلے تو دوسری حالت میں داخل ہو جائے۔ اگر اللہ نے اس کو نعمتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے تو وہ شکر کرنے والا ہو اور اگر کوئی مصیبت یاتنگی اسے پہنچی ہے تو صبر کرنے والا ہو۔

            حضرت صہیب بن سنان رومی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

«عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہ کُلَّہ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِاَحَدٍ اِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ، اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَـہ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَـہ»

«مؤمن کا معاملہ تو بہت ہی خوب ہے، اس کے لیے ہر حال میں بھلائی ہے، اور یہ بات مؤمن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ اگر اسے کوئی آسائش پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے، پس یہ اُس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، پس یہ اُس کے لیے بہتر ہے۔» 

UP
X
<>