قرآن کریم > الـتكاثر >sorah 102 ayat 5
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ
ہرگز نہیں! اگر تم یقینی علم کے ساتھ یہ بات جانتے ہوتے (تو ایسا نہ کرتے)
آيت 5: كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ: «كوئى بات نهيں! كاش كه تم علم يقين كے ساتھ جان جاتے!»
يعنى موت يا قيامت كا علم دراصل يقينى علم هے، كاش كه تمهيں اس كا شعور هوتا۔ حكماء كے هاں هميں يقين كے تين درجوں كا ذكر ملتا هے: علم اليقين، عين اليقين اور حق اليقين۔ علم اليقين وه يقين هے جو انسان كو علم، معلومات يا استدلال كى بنياد پر حاصل هو۔ مثلا آپ نے دور سے دھواں اٹھتا ديكھا تو آپ نے كها كه وهاں آگ لگى هوئى هے، حالاں كه آگ آپ نے اپنى آنكھوں سے نهيں ديكھى۔ پھر جب آپ نے وهاں جا كر خود اپنى آنكھوں سے آگ كو ديكھ ليا تو آپ كو عين اليقين حاصل هوگيا۔ ليكن حق اليقين كا درجه اس سے بھى آگے هے۔ يقين كا يه درجه باقاعده تجربے سے حاصل هوتا هے اس ليے كه آنكھ سے ديكھنے ميں بھى دھوكے كا امكان هے۔ ضرورى نهيں كه كوئى چيز نظر آرهى هے حقيقت ميں بھى ويسے هى هو۔ جيسے آج كل اليكٹرك هيٹرز ميں انگارے دهكتے هوئے دكھائى ديتے هيں، ليكن جب آپ غور سے ديكھتے هيں تو معلوم هوتا هے كه يه تو محض دكھاوے كا منظر هے اور حرارت كا اصل منبع كهيں اور هے۔ چناں چه آگ كے بارے ميں آپ كو علم اليقين تو محض دھواں ديكھنے سے هى حاصل هوگيا۔ پھر جب آپ نے آگ كو چھو كر يا اس كے قريب هوكر اس كى حرارت كو عملى طور پر محسوس كيا تو آگ كى موجودگى كے بارے ميں آپ كا يقين «حق اليقين» كے درجے ميں آگيا۔